افسوس ہے کہ میں اس ریٹائرڈ فوجی کا نام نہ پوچھ سکا۔ اب یہ واقعہ ایک ریٹائرڈ فوجی کی زبانی سنیے:۔
Pak Fauj kay Shaheed ki nirali shaan
کھڑا رہتا ہے۔ اس جوان کو اپنے بہن بھائیوں ماں باپ، بیوی بچوں اور اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اپنے ملک کی سرحد کی حفاظت ہوتی ہے۔ میں پاک فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتا رہا ہوں۔ اب میں ایک ریٹائرڈ فوجی کی حیثیت سے زندگی کے دن رات کاٹ رہا ہوں مگر اب بھی جب مجھے پاک فوج میں گزری سہانی یاد میں آتی ہیں تو میری
آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ میرے سارے دور میں ایک واقعہ ایسا ہوا جس نےمیرے جذبے کو اور زیادہ بڑھا دیا میں ساری زندگی اللہ سے بارڈرپردشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کی موت ما نگتارہا مگر شاید میرے اللہ کو ایسا منظور نہ تھا۔ یہ 1984 کی بات ہے جب انڈیا میں اندرا گاندھیکا قتل ہوا تھا اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بارڈر پر حالات بہت ہی زیادہ کشیدہ ہوگئے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی انڈیا نے حملہ کیا کہ کیا میری ڈیوٹی ان دنوں سیالکوٹ سیکٹر پرتھی ہمیں حکم ملا کہ جلد از جلد بارڈر
کے قریب مورچہ کھودیں ۔ ہماری پوری ٹیم پورے جذبے کے ساتھمورچے کودرہی تھی میں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مصروف تھا۔
ہم صبح سے مورچے کھو در ہے تھے اس دوران ہم نے نماز ظہر ادا کی کھانا کھایا ہم سارا دن دشمن سے لڑائی کی باتیں کر رہےتھے
اور اپنے وطن کی ایک ایک انچ کی حفاظت کی قسمییں کھا رہے تھے،ہم میں ایک ایسے سپاہی بھی موجود تھے جنہوں نے 1965 ء اور 1971 کی جنگیں لڑئی تھیں وہ ہمیں دشمن کی بزدلی کی باتیں سنارہے تھے۔ مورچے کھودتے کھودتے اچانک مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مٹی میں کسی کی ٹانگ ہے۔ میں نے اوزار سائیڈ پر رکھے اور ہاتھ سے مٹی ہٹانی شروع کردی ۔ میرے ساتھیوں نے بھی اس کام میں میری مدد کی ۔ کچھ ہی دیر میں ہم نے ملٹی میں پاک فوج کے ایک شہید جوان کو نکالا جو کہ بلکل صحیح حالت میں تھا خاکی ورودی بھی بلکل صحیح حالت میں تھی اس کی گردن پر ایک گولی کا نشان تھا اس کے جسم کا درجہ حرارت بھی نارمل تھا اور وہ ایسے لیٹا تھا جیسا کہ ابھی ابھی سو یا ہے۔ ہم نے جب پاک فوج کے شهید جوان کی ایسی شان دیکھی تو ہمارے منہ سے کبیر کے نعرے لگانا شروع ہو گئے اور نہ جانے کب تک ہم ایسے ہی نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے
ہماری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ہم نے بڑے ادب سے اس کا جسد خاکی مورچے سے نکال کر ہیڈ کوارٹر میں اطلاع کی ۔ ہمارے افسران آئے انہوں نے اس شہید کا ریکارڈ چیک کیا تو معلوم ہوا کہ 1965 ء کی جنگ میں یہ جوان لاپتہ
ہوگیا تھا ۔ اس کے گھر والوں کو اطلاع دی اس کا جسد خاکی لے کر جب جارہے تھے میں بھی ان کے ساتھ اس کے گاؤں گیا اور اس کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ فون کیا گیا۔ آج بھی جب اس شہید کا جسد خاکی میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو میری آنکھیں اس حسرت سے جھک جاتی ہیں کہ اے کاش میں بھی اپنے وطن کی حفاظت کرتا کرتا اس دنیا فانی سے رخصت ہو کر ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتا۔