An Article about Ghazwa e Hind by Dr. Umair Mehmood Siddique
ہندوستان زمین کا وہ حصہ ہے جہاں ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم رکھا۔ ہندوستان میں اسلام کا پیغام نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں پہنچ چکا تھا۔ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا:
مَنْ ھٰؤُلَاءِ الْقَوْمُ الّذِينَ كَاَنھُمْ رِجَالُ الْھِنْدِ (سیرت ابن ہشام، ج:2/ ص:593)یہ کون لوگ ہیں جو ہند وستان کے مرد معلوم ہوتے ہیں۔
ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ’’مالابار‘‘ کے بادشاہ ’’چکر ورتی فرماس‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
أھدى ملك الھند إلى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم جرۃ فيھا زنجبيل فاطعم أصحابہ قطعۃ قطعۃ وأطعمني منھا قطعۃ (المستدرك على الصحيحين للحاكم،رقم الحدیث :۷۲۷۹)’’ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا، اس میں ادرک تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا۔‘‘
’’ممکن ہے کہ یہ وہی صحابی بادشاہ ہوں جن کا ذکر امام حاکم نے اپنی کتاب حدیث میں کیا ہے۔ نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمدحمید اللہ رحمہ اللہ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: اس نے ہادی کون و مکاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ ﷺ کے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا۔ راستے میں یمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوا۔ یہاں آج بھی اس ’ہندوستانی بادشاہ‘ کے مزار پر لوگ فاتحہ کے لیے آتے ہیں۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے۔ زین الدین المعبری کی تصنیف ’تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین‘ میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔‘‘(محمد رسول اللہ ﷺ ،ص:۱۹۹)
ہند کے بارے میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
أطيب ريح في الارض الھند (المستدرک للحاکم: رقم الحدیث:3954)یعنی زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے۔
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ”میر آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں کئی صفحے ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی (ﷺ)حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ابتدائی ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے۔“(عرب و ہند کے تعلقات :ص:28)
ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس پر جاری ہوا۔اٹھارویں صدی کے مؤرخ آزاد غلام علی حسینی بلگرامی نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ”سبحۃ المرجان في آثار ہندستان“ اور ”شمامۃ العنبر فيما ورد من الھند من سيد البشرﷺ“ تحریر فرمائی ہیں جن کا ذکر معجم المؤلفین میں بھی کیا گیا ہے۔ مؤخر الذکر کتاب یقینا اس موضوع پر مزید تحقیق کے حوالہ سے فائدہ مند ثابت ہوگی۔
احادیث شریفہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔ آپ قیقان کے مقام پر جو سندھ کا حصہ تھا، شہید ہو گئے۔ (فتوح البلدان ،ج:3/ص:531) امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے۔(مشارع الاشواق:ص:۹۱۸۔۹۱۹)
حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تاریخ فرشتہ میں ہے: ”۴۴ھ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا۔(تاریخ فرشتہ،محمد قاسم فرشتہ،ج:۱/ص:46) اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا۔ انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا۔پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی، 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا، جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا۔“ (تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:655 تا 659)
حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمۃ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ امام ذہبی فرماتے ہیں:
وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّہ يحيي ويميت، ويقصدونہ من البلاد، وافتتن بہ أمم لا يحصيھم إلاّ اللہ. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب لہ قرباناً من نفيس مالہ. (تاریخ الاسلام:ج:۶/ص:۳۶)”اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا۔ اور وہ (اہل ہند) یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کے لیے آتے تھے۔ اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہوئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو۔“
سومنات کی فتح کے سال سلطان محمود غزنوی حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے سلطان کو اپنا خرقہ عطا فرمایا۔ شیخ صاحب سے رخصت ہو کر سلطان محمود غزنوی واپس آئے اور عطا کردہ خرقہ کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا۔ جس زمانے میں محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا تھا اور پرم اور دشیلم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوؤں کا لشکر غالب نہ آجائے۔ اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ صاحب کے خرقہ کو ہاتھ میں لے کر سجدہ میں گر گیا اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی ”اے اللہ! اس خرقے کے مالک کے طفیل میں مجھے ان ہندوؤں کے مقابلے میں فتح دے۔ میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت یہاں سے حاصل کروں گا اسے یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا۔“ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے۔ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوؤں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ہندوؤں کی اس باہمی جنگ کی وجہ سے پریم دیو کی فوج میدان جنگ سے بھاگ نکلی اور یوں مسلمانوں نے ہندوؤں پر فتح پائی۔ (تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:91)
حضرت امام نسائی علیہ الرحمۃ نے غزوہ ہند سے متعلقہ احادیث پر ایک باب رقم کیا ہے۔ جس میں آپ نے تین احادیث روایت کی ہیں۔ ان میں دو احادیث کے راوی حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک حدیث کے راوی حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں:
وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ غَزْوَۃ الْھِنْدِ فَانْ أدْرَكْتُھَا أنْفِقْ فِيھَا نَفْسِي وَمَالِي فَانْ أقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أفْضَلِ الشُّھَدَاءِ وَإنْ أرْجِعْ فَانَا أبُوھُرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ(سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس اگر میں نے اس غزوہ کو پایا تو میں اس میں اپنی جان اور اپنا مال خرچ کردوں گا۔ اگر مجھے قتل کردیاجائےگا تو میں سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آؤں گا تو میں (آگ سے) آزاد کیا ہوا ابوہریرہ ہوں گا۔
ایک دوسری سند سے بھی بعینہ یہی الفاظ مروی ہیں
وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ غَزْوَۃ الْھِنْدِ فَانْ أدْرَكْتُھَا أنْفِقْ فِيھَا نَفْسِي وَمَالِي وَإنْ قُتِلْتُ كُنْتُ أفْضَلَ الشُّھَدَاءِ وَإنْ رَجَعْتُ فَانَا أبُوھُرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ (سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)رسول اللہ ﷺنے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس اگر میں نے اس کو پایا تو میں اس میں اپنی جان اور اپنا مال خرچ کر دوں گا اور اگر میں اس میں قتل کر دیا گیا تو سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو میں (جہنم کی آگ سے) آزاد کیا ہوا ابوہریرہ ہوں گا۔
عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ عِصَابَتَانِ مِنْ أمَّتِي أحْرَزَھُمَا اللہ مِنْ النَّارِ عِصَابَۃ تَغْزُو الْھِنْدَ وَعِصَابَۃ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْھِمَا السَّلَام (سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ نے (جہنم کی) آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور دوسرا وہ گروہ ہےجو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا۔ ان احادیث کو امام نسائی نے اپنی کتاب السنن الکبریٰ میں بھی نقل کیا ہے۔ ( السنن الکبریٰ: رقم الحدیث: 4382،4383،4384)
حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ نے غزوہ ہند کے بارے میں اپنی اسناد سے تین احادیث نقل کی ہیں، جن میں سے دو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
عَنْ أبِي ھُرَيْرَۃ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَۃِ الْھِنْدِ فَانْ اسْتُشْھِدْتُ كُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّھَدَاءِ وَإنْ رَجَعْتُ فَانَا أبُوھرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ (مسند امام احمد بن حنبل:رقم الحدیث:6831)رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوۂ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے۔ اگر میں اس میں شہید ہو گیا تو سب سے بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو آگ سے آزاد کیا ہوا ابو ہریرہ ہوں گا۔
عَنْ أبِي ھُرَيْرَۃ قَالَ حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيہ وَسَلَّمَ أنَّہُ قَالَ يَكُونُ فِي ھٰذِہِ الْامَّۃِ بَعْثٌ إلَى السِّنْدِ وَالْھِنْدِ فَانْ أنَا أدْرَكْتُہ فَاسْتُشْھِدْتُ فَذَلِكَ وَإنْ أنَا فَذَكَرَ كَلِمَۃ رَجَعْتُ وَأنَا أبُوھُرَيْرَةۃ الْمُحَرَّرُ قَدْ أعْتَقَنِي مِنْ النَّارِ (مسند امام احمد بن حنبل:رقم الحدیث:۸۴۶۷)میری امت میں سے ایک لشکر کو سندھ اور ہند کی طرف بھیجا جائے گا۔ پس اگر میں نے اس کو پایا اور اس میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ہے اور اگر، پھر آپ نے ایک کلمہ ذکر کیا،(پھر فرمایا) میں لوٹ آیا تو میں ابوہریرہ ہوں جس کو اللہ آگ سے آزاد فرمادے گا۔
عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أمَّتِي أحْرَزَھُمْ اللہ مِنْ النَّارِ عِصَابَۃ تَغْزُو الْھِنْدَ وَعِصَابَۃ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْہِ السَّلَام (مسند امام احمد بن حنبل)نبی کریم ﷺکے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے دو گروہ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرمایا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ آور ہوگا اور ایک وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوگا۔
امام بخاری نے التاریخ الکبیر، امام بیہقی نے اپنی دو کتابوں سنن کبریٰ اور دلائل النبوۃ، امام حاکم نے المستدرک، امام طبرانی نے المعجم الاوسط، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، امام جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع، امام مناوی نے فیض القدیر، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام، امام خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد، اور امام ابن کثیر نے البدایۃ و النہایۃ، النھایۃ فی الفتن و الملاحم میں غزوہ ہند سے متعلق ان احادیث کو روایت کیا ہے.
رسول اللہ ﷺ کا وعدہ غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ ہند کا اس امت سے وعدہ کیا ہے۔ ان کلمات سے اس غزوہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اسی وجہ سے علمائے اسلام نے اپنی کتب میں غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو بیان کیا ہے اور اس امانت و بشارت کو ہر دور میں آئندہ آنے والی نسلوں تک منتقل کیا ہے۔ اہل ایمان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اپنے وعدے کو وفا کرتے ہیں، اس لیے غزوۂ ہند کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
غزوۂ ہند میں شرکت اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ ان احادیث کےمطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس غزوہ میں شریک ہونے کی تمنا کیا کرتے تھے، جس کا اظہار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایمانی کلمات سے بخوبی ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا بھرپور طور پر اظہار کیا کہ اگر مجھے وہ دور نصیب ہوا جب غزوہ ہند ہوگا تو میں اپنی جان، مال، میراث اور اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا۔ تقسیم ہند کے بعد مشرکین ہند نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور تا حال اہل پاکستان ان کے ساتھ ہمہ جہتی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ مجاہدین جن کو اللہ نے مشرکین ہند کے ساتھ جہاد کی توفیق عطا فرمائی ہے، ان کو چاہیے کہ وہ اپنا سب کچھ اسلام اور پاکستان کی سر بلندی کے لیے قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندربیدار رکھیں جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا اظہار کیا۔
افضل الشہداء غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے شہادت کی تمنا کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس غزوہ میں جو لوگ شہادت کی عظیم نعمت سے ہمکنار ہوں گے وہ اللہ کے نزدیک افضل الشہداء میں سے ہوں گے۔ امام ابن قیم علیہ الرحمۃ افضل الشہداء کے بارے میں حدیث روایت کرتے ہیں:
أفْضَلُ الشّھدَاءِ الّذِينَ إنْ يَلْقَوْا فِي الصّفّ لَا يَلْفِتُونَ وُجُوھَھُمْ حَتّى يَقْتُلُوا أولَئِكَ يَتَلَبّطُونَ فِي الْغُرَفِ الْعُلَى مِنْ الْجَنّۃ وَيَضْحَكُ الَيْھِمْ رَبّك وَإذَا ضَحِكَ رَبّكَ إلَى عَبْدٍ فِي الدّنْيَا فَلَا حِسَابَ عَلَيْہِ (زاد المعاد:ج:۳/ص:۳۳)سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء وہ ہیں جب وہ صف میں (دشمن سے) آمنے سامنے ہوتے ہیں تو اپنے چہروں کو نہیں موڑتے یہاں تک کہ وہ قتال کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو جنت کے بلند ترین کمروں میں اپنے پیر ماریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو (اپنی شان کے مطابق) مسکرا کر دیکھے گااور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی طرف دنیا میں مسکرا کر دیکھتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا۔
گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے آزادی اس غزوہ میں شریک ہونے والوں کے لیے ایک بشارت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا اور اگر کوئی شخص اس غزوہ میں شہادت حاصل نہ کر سکا اور غازی بن کو لوٹا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون فرمادے گا۔
سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت اور علم غیب ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے وعدے کو پورا فرمایا اور سندھ اور ہند کے دروازے اہل اسلام کے لیے وا فرما دیے۔ یہ احادیث رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور اللہ کی جانب سے علم غیب کے عطا کیے جانے پر دلالت کرتی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اگر چہ اس جنگ میں امام مہدی اور عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے ساتھ شریک ہونے کی تمنا کا اظہار کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺنے آپ سے مسکراتے ہوئے اس بات کو بیان فرمادیا کہ ابوہریرہ اس میں شریک نہ ہو پائیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی نیت کے موافق غزوہ ہند میں شرکت کا اجر عطا فرمائے گا۔
حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بیان حضرت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ اسلام کے عقیدے کے مطابق آپ کو یہودی نہ تو شہید کر سکے اور نہ ہی آپ کو مصلوب کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اور قیامت سے قبل آپ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق عدل فرمائیں گے۔ آپ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق احادیث متواتر ہیں۔ غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں آپ علیہ السلام کی معیت میں جہاد کرنے والے گروہ کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ یہ احادیث بھی آپ علیہ السلام کی آمد ثانی پر دلالت کرتی ہیں۔
حضرت امام حماد بن نعیم علیہ الرحمۃ (متوفی:۲۲۹ھ) روایت فرماتے ہیں:
عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الھند فيفتحھا فيطئوا أرض الھند وياخذوا كنوزھا فيصيرہ ذلك الملك حليۃ لبيت المقدس ويقدم عليہ ذلك الجيش بملوك الھند مغللين ويفتح لہ ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامھم في الھند إلى خروج الدجال. (الفتن:رقم الحدیث:۱۱۴۹)حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں ایک بادشاہ ایک لشکر ہند کی طرف بھیجے گا، وہ اسے فتح کریں گے۔ پس وہ ہند کی زمین کو روندیں گے اور اس کا خزانہ حاصل کریں گے۔ وہ بادشاہ اس خزانے کو بیت المقدس کا زیور بنا دے گا اور لشکر اس بادشاہ کے پاس ہند کے بادشاہوں کو جکڑ کر لائیں گے اور اس کے لیے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے، فتح کر دیا جائے گا۔ اور ان کا قیام دجال کے نکلنے تک ہند میں ہوگا۔
عن أبي ھريرۃ رضى اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم و ذكر الھند فقال ليغزون الھند لكم جيش يفتح اللہ عليھم حتى ياتوا بملوكھم مغللين بالسلاسل يغفر اللہ ذنوبھم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہند کا ذکر کیا، اور فرمایا: تمہارے لیے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا۔ اللہ ان کو فتح عطا فرمائےگا، یہاں تک کہ وہ ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا، پھر وہ لوٹیں گے جب ان کو لوٹنا ہوگا تو وہ ابن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا: ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی، اللہ اس کو فتح عطا فرمائےگا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، پس اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائےگا، پھر وہ لوٹیں گے شام کی طرف تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے۔ (الفتن:رقم الحدیث:۱۱۵3)
ہند سے قبل بیت المقدس کی فتح اورغزوۂ ہند کی تکمیل بیت المقدس اس وقت یہود کے قبضے میں ہے۔ مذکورہ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس غزوہ ہند کی تکمیل سے پہلے آزاد ہو جائے گا اور وہاں سے ہی ہندوستان کی فتح کے لیے لشکر اسلام کو روانہ کیا جائے گا۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک لشکر کو ہند فتح کرنے کے لیے ارسال فرمائیں گے اور وہ جب واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول ہو چکا ہوگا۔ پس غزوہ ہند کی بشارت کو حاصل کرنے کے لیے اہل اسلام مشرکین ہند سے جہاد کرتے رہے ہیں لیکن اس کی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلم دنیا کی افواج اور بالخصوص افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان ہدایات کی بنیاد پر اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی کو ازسرنو مرتب کریں کیونکہ جب تک بیت المقدس فتح نہیں ہوگا، اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں برپا جنگ جاری رہے گی اور مشرکین کی طرف سے ہونے والے مظالم بھی بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ فتح خیبر کی طرح یہودیوں کی شکست کے بعد ہی مشرکین کو مکمل شکست دینا ممکن ہوگا۔
امام مہدی ؑکے ساتھ غزوہ ہند کرنے والوں کے لیے آٹھ بشارتیں جس لشکر کو امام مہدی علیہ السلام ہند فتح کرنے کے لیے بھیجیں گے، احادیث میں ان کے لیے آٹھ عظیم بشارتیں ہیں: ۱۔ ہند مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے فتح ہو جائے گا اور وہ اس سرزمین کو اپنے قدموں تلے روندیں گے۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کی مغفرت فرما دے گا۔ ۳۔ ان کو مال غنیمت وافر مقدار میں ملے گا جس سے وہ بیت المقدس کو مزین کریں گے۔ ۴۔ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر وہ لشکر امام مہدی علیہ السلام کے سامنے پیش کرے گا۔ ۵۔ وہ لشکر جس قدر اللہ چاہےگا ہندوستان میں رہےگا اور پھر شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شامل ہونے کی فضیلت حاصل کرے گا۔ ۶۔اس لشکر کو دجال اور اس کے گروہ سے لڑنے کی فضیلت حاصل ہوگی۔ ۷۔مشرق و مغرب کے مابین جو کچھ ہے، وہ فتح ہوگا اور لیظھرہ علی الدین کلہ کا وعدہ پورا ہوگا۔ ۸۔اس کے شہداء افضل ترین شہید ہوں گے اور اس کے غازیوں کو جہنم سے خلاصی کی بشارت ہے۔ ۹۔غزوہ ہند سے قبل بیت المقدس فتح ہو جائے گا۔
کیا غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت ہیں؟ راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ تاریخ اسلام میں جن ائمہ و محدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے، ان کو اس مضمون میں اپنی معلومات کے مطابق جمع کر دیا جائے۔ تقریبا بیس کتب حدیث و تاریخ میں اکابر محدثین اور مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث و بشارتوں کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نعوذ باللہ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں بلکہ علمائے امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انھیں نقل کیا ہے۔ پس وہ افراد جو غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو جھوٹا اور موضوع قرار دیتے ہیں، انہیں اس قبیح عمل سے سخت اجتناب کرنا چاہیے۔
کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے؟ رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو غزوہ ہندکی بشارت عطا فرمائی ہے۔ بعض افراد کی یہ رائے ہے کہ غزوہ ہند کی بشارت مکمل ہو چکی ہے اور اب غزوہ ہند پیش نہیں آئےگا۔ بعض حضرات یہ بات اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ امن کی آشا کو بچانے کے لیے اس کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کا پسندیدہ ترین ملک جس کی تہذیب و ثقافت میں وہ رنگتے جا رہے ہیں، ناراض نہ ہو جائے۔ اگر ہم غزوہ ہند سے متعلق وارد ہونے والی تمام احادیث اور اس سے متعلق محدثین و مؤرخین کے اقوال اور امت کا عمل دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہلب بن صفرہ سے لے کر آج تک اہل اسلام کی مشرکین ہند سے جتنی بار جنگ ہوئی ہے، وہ اسی بشارت میں شامل ہے اور احادیث کے مطابق غزوہ ہندکی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک پر ہوگی جس کے نتیجے میں ہند ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ماتحت ہو جائے گا۔ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
وقد غزا المسلمون الھند في سنۃ أربع وأربعين في إمارۃ معاويۃ بن أبي سفيان رضي اللہ عنہ فجرت ھناك أمور فذكرناھا مبسوطۃ، وقد غزاھا الملك الكبير السعيد المحمود بن سبکتکین صاحب بلاد غزنۃ وما والاھا في حدود أربع مائۃ ففعل ھنالك أفعالاً مشھورة وأموراً مشكورۃ وكسر الصنم الاعظم المسمى بسومنات وأخذ قلائدہ وسيوفہ ورجع إلى بلادہ سالماً غانماً (النہایۃ فی الفتن:ص:۱۲۔۱۳)اور مسلمانوں نے ہند پر سن ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی امارت میں حملہ کیا، پس وہاں بہت سے امور وارد ہوئے جن کا ذکر ہم نے تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے۔ اور ہند پر اور ان علاقوں پر جو اس کے ساتھ ملحق تھے، سن چار سو کی حدود میں بڑے سعید بادشاہ محمود بن سبکتکین غزنی والے نے حملہ کیا۔ وہاں آپ نے بہت مشہور اور مشکور کام کیے اور سب سے بڑے بت کو توڑ دیا جس کو سومنات کہا جاتا تھا اور اس کے قلائد اور تلواریں حاصل کیں اور اپنے زہروں کی طرف سلامتی اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے۔ اسی بات کا ذکر غزوہ ہند کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے اپنی تاریخ کی کتاب البدایۃ و النھایۃ میں بھی کیا ہے۔ (البدایۃ و النہایۃ:ج:۶/ص:۲۴۹) امام ابن کثیر علیہ الرحمۃ کا غزوہ ہند کی احادیث نقل کرنے کے فورا بعد اپنی تایخ کی کتاب اور فتن پر لکھی جانے والی علیحدہ کتاب میں اہل اسلام کے ہند پر مختلف ادوار میں کیے جانے والے حملوں کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ تمام اس بشارت میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ علماء نے غزوہ ہند کو قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت کے طور پر ذکر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس بشارت کی تکمیل ابھی باقی ہے۔
سند ھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی چین سے حضرت امام قرطبی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
و خراب السند من الھند و خراب الھند من الصين۔ (التذکرۃ:ص:۶۴۸)اور سندھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی خرابی چین سے ہے۔ اس روایت کو امام ابن کثیر (النہایۃ فی الفتن و الملاحم:ص:۵۷) اور امام ابوعمرو دانی (السنن الواردۃ فی الفتن:ج:۲/ص:۳۶) نے بھی روایت کیا ہے۔
اس حدیث مبارکہ کے درست معنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ تاہم اگر ہم حالات حاضرہ پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سندھ میں فتنہ و فساد، قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کا سبب ہندوستان ہے۔ بالخصوص سندھ کا وہ جغرافیہ جو نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں تھا، وہاں کے حالات اسی پر دلالت کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ چین حسب سابق پاکستان کی معاونت کرے اور اللہ تعالیٰ چین کو پاکستان کی نصرت اور ہندوستان کی تباہی کا سبب بنا دے۔ دفاعی اداروں کو اس حدیث کے پیش نظر سندھ پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔
واللہ و رسولہ ﷺ اعلم بالصواب
Visit Toptipsfeed.com for Technology,Health articles.